مخصوص نشستوں پر آنے والے ہماری نمائندگی کے بجائے پارٹی کے گن گاتے ہیں، اقلیتی برادری کا شکوہ


 مخصوص نشستوں پر رکن سندھ اسمبلی اور رکن قومی اسملبی بننے والے اقلیتی برادری کے رہنما اپنی کمیونٹی کی نمائندگی کے بجائے پارٹی کے گن گاتے ہیں۔ یہ کہنا ہے کراچی کے حلقہ این اے 230 (حالیہ حلقہ بندیوں سے پہلے این اے 237) کے ووٹر اور کرسچن فیملی سے تعلق رکھنے والے بشیر کا، جو اسماعیل گوٹھ میں رہائش پذیر ہیں اور یو سی 4 بن قاسم ٹاؤن میں سینٹری ورکر کے انچارج کے طور پر کام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم جہاں رہائش پذیر ہیں، وہاں ہماری کمیونٹی کے 300 سے زائد گھر ہیں لیکن صرف 40 سے 45 ووٹ رجسٹرڈ ہیں اور حالیہ مردم شماری کے بعد بھی ہمارے کچھ لوگوں کے ووٹ کے اندراج ہوئے ہیں لیکن ابھی تک ہمیں لسٹیں نہیں ملی جب کہ صرف ہمارے علاقے میں نہیں بلکہ اس پورے حلقے میں جہاں جہاں ہماری کمیونٹی رہتی ہے ، وہاں یہی حال ہے۔

بشیر نے بتایا کہ اگر ہماری کمیونٹی کے کہیں پر 50 گھر بھی ہیں تو اس میں زیادہ سے زیادہ 20 یا 25 ووٹ ہوتے ہیں باقی مختلف دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے نادرا سے آج تک رجسٹرڈ ہی نہیں ہوئے، یہاں تک کہ 2018 کے عام انتخابات میں بھی جن لوگوں کے ووٹ رجسٹرڈ تھے وہ بھی آخری لمحہ پر ووٹ کاسٹ نہیں کرسکے کیوں کہ جب وہ ووٹ ڈالنے گئے تو ان کا ووٹ وہاں موجود ہی نہیں تھا۔

اپنی کمیونٹی کے مسائل پر بات کرتے ہوئے بشیر کا کہنا تھا کہ ہمیں صاف پینے کا پانی دستیاب نہیں اور اس حوالے سے الیکشن سے پہلے تو ہم سے بہت وعدے کیے جاتے ہیں لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا، یہاں تک کہ پچھلے عام انتخابات سے قبل جو سیاسی لوگ ہمارے پاس آکر وعدے کرکے گئے تھے وہ جیتنے کے بعد ہماری طرف کبھی نہیں آئے، یہاں تک کہ ہم نے اپنے سامنے والی گلیوں میں سڑکیں بنتے ہوئے دیکھیں لیکن ہماری گلیاں اور دیگر مسائل آج بھی جوں کے توں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے ایک فیصلے سے ہمارے مسائل میں اضافہ ہوا۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بشیر نے بتایا کہ 1997 تک اقلیتی برادری کے لوگ براہ راست منتخب ہوکر اسمبلیوں میں جاتے تھے، اب چونکہ وہ ہم سے ووٹ لے کر جاتے تھے تو ہمارا خیال بھی رکھتے تھے اور انہیں ہمارے مسائل کا اندازہ بھی تھا لیکن جب سے یہ مخصوص نشستوں والا معاملہ آیا ہے تو اس میں ہر سیاسی جماعت اپنے من پسند افراد کو بھیجتی ہے اور وہاں جاکر وہ اقلیتی برادری کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ پارٹی کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور ان کے ہی گن گاتے ہیں۔ اور ہمارے پوچھنے پر وہ برملا یہ کہتے ہیں کہ آپ لوگوں نے کون سے مجھے ووٹ دے کر منتخب کیا ہے، مجھے پارٹی نے سیٹ دی ہے تو میں پارٹی کی ہی نمائندگی کروں گا۔ حالانکہ میں خود اس بات کا گواہ ہوں جب اقلیتی برادری کے نمائندے ہمارے ووٹوں سے منتخب ہوکر آتے تھے تو وہ ہماری بات بھی سنتے تھے اور ساتھ بیٹھ کر ہمارے مسائل بھی حل کرتے تھے۔

بلدیاتی انتخابات میں اقلیتی برادری کے کونسلر آپ لوگوں میں سے ہی منتخب ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود آپ یہ شکوہ کیوں کررہے ہیں کہ ہمارے چھوٹے مسائل بھی حل نہیں ہوتے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ بلدیاتی انتخابات ہوئے ایک سال ہوگیا لیکن اب تک کونسلر کو ایک روپے کا بجٹ نہیں دیا گیا تو وہ کہاں سے مسائل حل کرے گا اور آخرکار اسے بھی پارٹی نے ہی منتخب کیا ہے۔

خیال رہے کہ قانون کے مطابق ریاست پاکستان کے ہر شہری کو ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے نادرا سے رجسٹرڈ ہونا ضروری ہے لیکن سندھ کی اقلیتی کمیوٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ ہماری آبادی کو مختلف شناختی دستاویزات کی وجہ سے نادرا سے رجسٹریشن میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ووٹ بھی بہت کم ہوتے ہیں۔

اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے سندھ کے صحافی پرتاپ مالہی  نے اقلیتی کمیونٹی کے ووٹ رجسٹریشن سے متعلق سوال کے جواب میں بتایا کہ دراصل اس میں خود ہمارا بھی قصور ہوتا ہے کیوں کہ ہم ہر سال، دو سال میں اپنے علاقے تبدیل کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا پتہ تبدیل ہوتا ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ کسی کے والد کا شناختی کارڈ عمرکوٹ کا ہے تو اس کے دادا کا خیرپور یا سکھر کا ہوگا اور پھر اکثر لوگ کراچی میں رہائش اختیار کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں رجسٹریشن کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

خیال رہے کہ  سندھ کی تاریخ میں پہلی بار 2018 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 222 تھرپارکر سےپاکستان پیپلزپارٹی کی ٹکٹ پر لڑنے والے  مکیش کمار ملانی  پہلی بار اقلیتی نمائندے کے طور پر جنرل نشست پر کامیاب ہوئے تھے۔

جس طرح 2018 میں ایک اقلیتی رہنما کو عام انتخابات میں کامیابی ملی تو پھر یہ لوگ آزاد الیکشن کیوں نہیں لڑتے؟ اس سوال کے جواب میں پرتاپ مالہی کا کہنا تھا کہ سندھ میں وڈیروں کے خوف سے کوئی اپنی مرضی سے ووٹ کاسٹ نہیں کرسکتا تو وہ آزاد امیدوار کے طور پر کھڑے ہونے کا سوچ بھی کیسے سکتا ہے اور وہ بھی پیپلزپارٹی یا کسی وڈیرے کے خلاف تو یہ ممکن ہی نہیں، البتہ ماضی میں کچھ مثالیں ایسی ملتی ہیں جہاں کچھ لوگوں نے آزاد امیدوار کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروائے لیکن انہیں اتنا ڈرایا یا ہراساں کیا جاتا ہے کہ وہ خود ہی پیچھے ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور سوچ بھی پائی جاتی ہے جو پیپلزپارٹی کے حق میں جاتی ہے، وہ یہ کہ اقلیتی کمیونٹی کی زیادہ تر خواتین کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ اگر پیپلزپارٹی کی حکومت نہیں بنی تو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ختم ہوجائے گا اور انہیں ماہانہ جو ہزاروں روپے ملتے ہیں وہ اس سے محروم ہوجاتے ہیں، اکثر لوگ تو اس خوف سے بھی کسی اور کو ووٹ ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔

اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے صحافی نے مزید کہا کہ بہرحال اب صورتحال پہلے جیسی نہیں رہی کیوں کہ سوشل میڈیا نے عوام کو  طاقت دے دی ہے اور کسی کو تھپڑ بھی پڑتا ہے تو اس کی گونج دور تک سنائی دیتی ہے اور اب تو نوجوان صحافی بھی آواز اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں اقلیتی برادری کو طبی سہولیات فراہم نہیں کی جاتی اور نہ ہی تعلیم دی جاتی ہے، جبکہ تعلیم کے نام پر سرکاری اسکولوں میں جو ہوتا ہے اس سے سب واقف ہیں اور سندھ کے سرکاری اسپتالوں کی مثالیں تو ہر روز میڈیا میں دکھائی دے رہی ہوتی ہیں۔

 آئین پاکستان کے آرٹیکل 51 کے مطابق قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے 10 اور آرٹیکل 106 کے تحت صوبوں میں 24 سیٹیں مختص ہیں جن میں صوبہ سندھ کی 9، پنجاب 8، بلوچستان 3 جب کہ خیبر پختونخواہ کی 4 نشستیں شامل ہیں۔ اقلیتی برادری کے لیے سینیٹ میں بھی 4 سیٹیں مختص ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جون 2022 کی ووٹر لسٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت مذہبی اقلیتوں کے کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 39 لاکھ 56 ہزار 336 ہے جس میں مردوں کے رجسٹرڈ ووٹ 21 لاکھ 52 ہزار 143 ہیں جب کہ خواتین کے رجسٹرڈ ووٹ 18 لاکھ 41 ہزار 193 ہیں۔

یوسی 6 بن قاسم ٹاؤن کے اقلیتی کونسلر ڈیوڈ نے کہا کہ میں قائدآباد میں رہائش پذیر ہوں جہاں ہماری کمیونٹی کی آبادی 350 گھروں سے زیادہ پر مشتمل ہے لیکن رجسٹرڈ گھروں کی تعداد 150 کے قریب ہے، باقی گھروں کو رجسٹرڈ بھی کردیا ہے لیکن ڈبل ایڈریس سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے وہ ووٹ کے حق سے محروم ہیں۔ اس کے لیے میں نے اقلیتی کمیونٹی کراچی ڈویژن کے صدر مشتاق مٹھو سے بھی بات کی، امید ہے کہ آنے والے انتخابات میں یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔

بطور کونسلر اپنی کمیونٹی کے مسائل کے حل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارا اہم مسئلہ چرچ کا ہے جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس کی تعمر نو بہت ضروری ہے کیوں کہ ہمارے لیے عبادت کی کوئی اور جگہ نہیں جب کہ کچھ دنوں بعد ہماری عید بھی آرہی ہے، ایسے میں ہمارے لوگ اپنی عبادت گاہ سے محروم ہیں۔ اس حوالے سے میں نے متعدد بار اعلیٰ عہیداران سے رابطہ کیا لیکن مجھے کہا گیا جیسے ہی فنڈز آئیں گے سب سے پہلے یہ کام ہوگا۔

بطور کونسلر گزشتہ ایک سال کے دوران اپنی کمیونٹی کے لیے کیا کام کیا اور ان کے کون سے مسائل حل کیے؟ اس سوال کے جواب میں ڈیوڈ کا کہنا تھا کہ جب سے کونسلر بنا ہوں، مجھے کوئی فنڈ نہیں ملا۔

ڈیوڈ نے خواہش ظاہر کی کہ مخصوص نشستوں کے بجائے اگر ہمارے لوگ بھی الیکشن کے ذریعے منتخب ہوکر آئیں گے تو ہمارے مسائل حل ہوسکیں گے اور ہماری کمیونٹی کی سنوائی ہوگی کیوں کہ مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے ہمارے مسائل سے آگاہ ہی نہیں ہوتے لیکن اس کے برعکس جو ہم سے ووٹ لے کر منتخب ہوگا ، وہ ہمارا ہی سوچے گا کیوں کہ اسے اگلی بار پھر ہمارے پاس ہی آنا ہوگا۔

2018 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے اقلیتی رہنما لال چند مالہی نے کہا کہ جنرل الیکشن پر ٹکٹ کے حوالے سے نہ صرف اقلیتی نمائندگان بلکہ خواتین کے ساتھ بھی ناانصافی ہوتی ہے لیکن قانون کے مطابق ہر جماعت 5  فیصد خواتین کو ٹکٹ دینے کا پابند ہے، میرے خیال سے یہ شرح مزید بڑھنی چاہیے لیکن افسوس اقلیتی برادری کے لیے ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔  لہذا  ملک میں اقلیتی برادری کی تعداد دیکھتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو قانون کے تحت پابند کرنا چاہیے کہ وہ بھی کچھ فیصد ٹکٹ اقلیتی نمائندگان کو دیں۔

یاد رہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت سیاسی جماعتیں عام انتخابات میں 5 فیصد ٹکٹ خواتین کو دینے کی پابند ہیں۔

پی ٹی آئی اقلیتی ونگ کے صدر اور سابق ایم این اے لال چند مالہی نے کہا کہ چونکہ ان کی نشست پارٹی کی امانت ہوتی ہے اس لیے وہ پارٹی پالیسی پر بات کرنے کے پابند ہوتے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ وہ اپنی برادری کے لیے آواز نہیں اٹھاتے، مجھ سمیت پی ٹی آئی کے دیگر اقلیتی رہنماؤں نے اپنی برادری کے لیے اسمبلی میں مختلف بل پیش کیے، قراردادیں پاس ہوئیں، اعلیٰ حکام کے نوٹس میں بھی چیزیں لائیں گئیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ تر سیاسی جماعتیں کوشش کرتی ہیں کہ وہ مختص سیٹوں پر ایسے لوگوں کو منتخب کریں جن پر انہیں اعتماد ہو تاکہ کل کو وہ ان کے صیح اور غلط فیصلوں پر پارٹی کے ساتھ کھڑے ہوں، بانی پی ٹی آئی کے خلاف تحریک عدم اعتماد اس کی واضح مثال ہے جس میں ایسے لوگوں نے زیادہ ساتھ دیا۔

اقلیتی برادری کے مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسائل تو دیگر برادریوں کے بھی ابھی تک حل طلب ہیں، سندھ میں زیادہ تر بچے اسکولوں سے باہر ہیں، لوگوں کو صحت کی سہولیات میسر نہیں لیکن  ان سب کا تعلق اقلیتی برادری سے  نہیں ہے،  بلکہ سندھ میں سب کا ایک جیسا حال ہے لیکن اقلیتی برادری ان چیزوں کو زیادہ محسوس کرتی ہیں کیوں کہ ان کی دیگر لوگوں کے مقابلے میں کسی بھی سطح پر سنوائی نہیں ہوتی اور جیسا میں نے کہا کہ مختص سیٹوں پر آنے والے لوگ ان کے لیے اس طرح آواز نہیں اٹھاتے جس طرح اٹھانی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اقلیتی برادری کے لیے ملازمت کا کوٹہ صرف 5 فیصد ہے اور وہ بھی سینیٹری ورکرز تک ہی محدود ہے لیکن افسوس اس پر بھی مکمل عمل درآمد نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اقلیتی برادری کے مذہبی مقامات کے تحفظ کا مسئلہ بہت اہم ہے کیوں کہ آئے دن ان پر حملوں کی اطلاعات موصول ہوتی رہتی ہیں،،اس کے لیے ریاست کی جانب سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جب کہ اقلیتی رہنماؤں کی جبری مذہب کی تبدیلی بھی ایک اہم معاملہ ہے جو حل طلب ہے۔

پی ٹی آئی اقلیتی ونگ کے صدر لال چند مالہی نے مزید کہا کہ سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی   نے جبری مذہب کی تبدیلی پر سینیٹر انوار الحق جو اس وقت ملک کےنگراں  وزیراعظم ہیں، ان کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی اور میں بھی اس کا حصہ تھا جب کہ ہم نے اس حوالے سے بہت سفارشات پیش کی تھیں اور کام بھی کیا تھا لیکن افسوس ہماری حکومت جانے کے بعد اس پر کوئی عملدرآمد  نہیں ہوا۔

واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم  کی ہدایت پرجبری مذہب کی تبدیلی کے معاملے پر سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں حکمران اتحاد اور اپوزیشن دونوں کی نمائندگی بھی شامل تھی۔

جمعیت علمائے اسلام سندھ کے نائب ترجمان اور چیف آف میڈیا مولانا سمیع الحق سواتی نے کہا کہ ہماری کوشش ہوتی ہے جس مقام پر اقلیتی آبادی زیادہ ہوں، وہاں ان کو ہی نمائندگی دی جائے اور جماعت نے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پنوعاقل، گھوٹکی اور سکھر میں اقلیتی نمائندگان کو نہ صرف ٹکٹ دیے بلکہ پورا پینل ہی ان کا کھڑا کیا تھا جو کامیاب بھی ہوا۔ جب کہ کراچی میں اقلیتی برادری کی تعداد کسی ایک مقام پر زیادہ نہیں ہے لیکن اس کے باجود عیسی نگری سے کرسچن اور گڈاپ ٹاؤن سے ہندو رہنما ہماری جماعت کے پینل میں شامل تھے، لہذا ہر جماعت کو چاہیے کہ وہ علاقہ کے حساب سے اقلیتی برادری کو نمائندگی دیں۔

اقلیتی برادری کے مسائل حل کرنے سے متعلق انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتی برادری کو جن مسائل کا سامنا ہے، مسلمان بھی ان مسائل سے نبردآزما ہے لیکن اس کے باجود اگر ہم پڑوسی ممالک سے موازنا کریں تو پاکستان کے سکھ اور ہندو ، مسلمانوں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور ایک دوسرے کا خیال بھی رکھتے ہیں لیکن اس کے برعکس ہندوستان میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں مولانا سمیع الحق سواتی کا کہنا تھا کہ جو ارکان اسمبلی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں، وہ کب اسمبلی میں عوام کی آواز اٹھاتے ہیں یا عوام کے لیے کام کرتے ہیں؟ یہ ایک عام مسئلہ ہیں اور میرے خیال سے زیادہ تر ارکان اسمبلی عوامی مسائل حل کرنے میں دلچسپی نہیں لیتے۔

فنڈز سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ ہم مسلمان رکن اسمبلی یا کونسلرز کو تو فنڈ دیتے ہیں لیکن اقلیتی رہنماؤں کو نہیں دیتے، اس سے ان کی محرومیوں میں مزید اضافہ ہوگا کیوں کہ اقلیتی برادری کے ہم پر زیادہ حقوق ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان کے مسائل فوری حل ہوں اور انہیں زیادہ فنڈز دیے جائیں، لیکن میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی پارٹی جان بوجھ کر اقلیتی رہنماؤں کے فنڈزنہیں روکے گی۔ تاہم یہ حکومتی اور سیاسی جماعتوں کے نظام کی کمزوری ہے کہ ہم اقلیتی برادری کو ساتھ لے کر نہیں چلتے اور ان کی سنوائی نہیں ہوتی۔

Post a Comment

0 Comments